محفل ہو تیری اور برپا وہاں محشر نہ ہو
ممکن کہاں ہو در تیرا اور کوئی وہاں سر نہ ہو
ہر گام پے ڈرا رہی ہے شب مجھے
شمع کر رہی خون پروانے کا تیرا ادھر نہ ہو
اڑتے پھرو شوق سے میرے صحن چمن میں تم
مگر شرط ہے تمہارا اک بھی پر نہ ہو
چھپا رہا تھا پر چہرے سے ظاہر ہوا افسوس
کوشش کی بہت حال دل کی اس کو خبر نہ ہو
جس جس طرح سے پہنچا ہوں تیرے تلک
اب بھی تجھے جان میری ہائے قدر نہ ہو
اے دوست اگر وار کرنا ہے شوق سے تو کر
پر یاد رہے تیری طرف میری کمر نہ ہو
کہتے ہیں بہادر ہو قلزم کوئی شکوہ نہ کرو
پر حکم کیسا ہے یہ تمہارا کہ چشم تر نہ ہو