محنتِ مفلِس پہ اپنے آشیانے بسائے جاتے ہیں
لُوٹ کر گنجینۂَ چمن اپنے خواب سجائے جاتے ہیں
اب بھی ناصر غریب کے گھر جلائے جاتے ہیں
اب بھی جشنِ طرب یوں ہی منائے جاتے ہیں
میں کیوں مانوں ان بادشاہوں کے اصولوں کو
جمہوریت کی آڑ میں نظامِ جمہوری مٹائے جاتے ہیں
اے خالقِ کائنات میرے وطن کی حفاظت فرما
اب تو یہاں جھوٹے بیان بھی دلوائے جاتے ہیں
اے تخت نشینو کیا تم بھول گئے ضیاء کا حال
جب پرتی ہے " خدا "کی مار کئی بادشاھ اُڑائے جاتے ہیں
ارسلؔان کہ تیرا بیانِ بغاوت انہیں بڑا نہ لگے
یہاں بولنے والے بھی تو ستائے جاتے ہیں