محو فکر محو خیال حیران کر گیا
ایک شخص میرے شہر کو ویران کر گیا
دل جو ئی تو د ل لگا کر کرتے رہے ہم
غیروں کی یہ ادا ھے پریشان کر گیا
حامی بھی بھری نا اور نا بھی کیا نا
دو بول دو گھڑی میں وقف زندان کر گیا
صدیوں سے ایک خود ھی کا اوڑھا ہوا تھا جال
منٹوں میں اپنے آپ سے بدگمان کر گیا
ہم کمزوریوں کے دم سے نکلے نھیں ابھی
میرا ہی ایک وصف تھا پشیمان کر گیا
آج خود کی تلاش میں ناکام ھو چلے
ایک راستے کا طوفاں بے نشان کر گیا
انجام درد کا یے حاصل رھا عارف
میرا وجود خود کو بنجان کر گیا