مدت سے درمیاں تھا جو حائل وہ آج تھا
کہنے دو مجھ کو پھر کہ وہ ظالم سماج تھا
دو دل ملیں٬ پھر وہ بچھڑ کر نہ مل سکیں
کیا رسم تھی جہاں میں یہ کیسا رواج تھا
پہلے تو انکو ہارا تھا دل جاں بھی وار دی
کس دن میں اتنا خوش تھا جتنا کہ آج تھا
قائم رہا تو ضد پہ بھلانے کی کیوں اسے
نکلا نہ دل سے وہ بھی ترا “ ہم مزاج “ تھا
پہلو میں یوں تو میرے دھڑکتا تھا میرا دل
جاگیر تھا یہ تیری جہاں تیرا راج تھا
حامد یہ درد دل کا لگایا تھا روگ کیوں
پرہیز کرتے سب سے یہ بہتر علاج تھا