مدت سے ہونٹوں پہ کوئی صدا نہیں رکھتے
مگر ایسا نہیں کوئی ہم دعا نہیں رکھتے
تم کیا سمجھو گے تمہیں معلوم ہی کیا ہے
مریض ء عشق کہیں بھی کوئی دوا نہیں رکھتے
لوگ اس لیئے بھی شاید تنہا چھوڑ جاتے ہیں
تعلق کسی سے عقل والے بے وجہ نہیں رکھتے
سنگ تنقید کے اوروں پر لوگ یوں برساتے ہیں
جیسے کہ خود میں کوئی خطا نہیں رکھتے
مانا کہ سفر بہت دشوار ٹھہرے ہیں
مگر یہ بھی نہیں کوئی راہ نہیں رکھتے
محبت کے دعوؤں کا جو پرچار کرتے ہیں
اکثر سنو وہی وفا نہیں رکھتے
اوقاتِ بے بسی بھی کیا خوب ہوتی ہے
طلب انتہا کی اور کاسا نہیں رکھتے
یہ بھی محبت کا اک دستور ہے عنبر
محبت جن سے رکھتے ہیں ان سے انا نہیں رکھتے