مدت ہوئی ہوا نہ آئی کوئے یار سے
خوشبو روٹھ گئی ہے چمن سے بہار سے
آج ان کا نہ آنا اک حشر سا ہو گیا ہے
آنکھیں الگ ہیں بے تاب دل بے قرار سے
مانا کہ اب ہمارا ٹھکانہ نہیں کوئی
یہ حالت ہو گئی ہے صرف ستم یار سے
شب تو کٹ چلی ہے امید سحر کے ساتھ
زندگی بھی گزر جائے گی خیال یار سے
لحد میری کیوں نہ بن جائے فردوس کی مثال
وہ بے وفا کہہ کر گزریں میرے مزار سے
آج گرد میں خوشبو ہے سارے جہان کی
لگتا ہے ہوا چھو آئی ہے دیار یار سے
دنیا سے تو کہیں بہتر تھا تیرا غم
اکتا گیا ہوں میں غم روز گار سے