مدرسہ میرا بہت پیارا لگے ہے
خوبصورت اب جہاں سارا لگے ہے
کھڑکیاں، دیوار، در، کمرہ، سجاوٹ
آنگن کیسا کشادہ اور یہ ستھرا لگے ہے
طفل مکتب بن سکوں بس ایک چاہت
قوم کی خدمت کا چسخہ سا لگے ہے
نقش پا استاد ہی کے ہو قدم پر
خوب محنت سے ہمیں ترشا لگے ہے
یار بھی اپنے، بزرگوں سے بھی ملنا
باپ، ماں کے ساتھ رہ اچھا لگے ہے
کھیل کے بھی داؤ سارے جیت پاؤں
روز ہی میدان میں ٹھرنا لگے ہے
امتحاں کے واسطے تیار رہنا
کامیابی کا مزہ چھکنا لگے ہے
چیونٹی کی وہ کہانی یاد ناصر
زندگی کوشش سے ہی بھرنا لگے ہے