مر رہے ہیں کوچہء بتاں کے بیچ
جیسے کوئی دشت کفر و ایماں کے بیچ
زندگی تو کٹی ہے ، اس طور اپنی
شجر تنہا کوئی جیسے گلستاں کے بیچ
نام و نشاں ہمارا ، پوچھتے ہیں لوگ
نہاں ہیں ہم چشم گریاں کے بیچ
جلنا ہے مدام شب و روز کام اپنا
جلتا ہے آفتاب جیسے آسماں کے بیچ
ہجوم درد میں حوصلہ جینے کا الٰہی
گرفتار گرداب ہوں بحر بیکراں کے بیچ
جل رہا ہے ، ذرا دیکھنا تو شائد
دل کسی کو گور غریباں کے بیچ
قصہء جنوں کیا کہتے ط اہر اپنا
نہ چھوڑا فرق دامن و گریباں کے بیچ