مرا ضبط مجھ سے جدا ہوا تو خبر ہوئی
مری زندگی مرے غم سمیٹ کے لے گئے
مرے سامنے سے نظر بچا کے گزر گیا
مجھے روز ملتا تھا کس لئے مرے خواب میں
ترے انتظار کی بھینٹ چڑھنے کا شوق تھا
مجھے اعتماد نے توڑ تاڑ کے رکھ دیا
مری نیند! کون سے شہر میں ترا گشت ہے؟
کبھی شام ڈھلتے ہی آیا کر مجھے دیکھنے
اسی عین وقت بگڑ گیا مرا حال بھی
کہیں شب ہوئی تو بکھر گئے ترے بال بھی
میں کسی سفر سے کسی سفر میں الجھ گیا
مجھے ورغلا کے یہ وحشتیں کہیں لے گئیں