مراد کو پانے نکلا ہوں کوئی مجھ کو دعا دے
ضعیفی ہے ہمسفر میری کوئی مجھ کو عصا دے
شب و روز ڈھونڈتا پھرتا ہوں ایسا سوداگر
عقل کے بدلے عشق کا مجھ کو سودا دے
کبھی دھیمی نہ پڑ نے پائے میری طلب آشنائی
تشنگی عشق میں ایسی مجھ کو انتہاء دے
میری لکیروں سے کھچے وہ تصویر
نا خداوؤں کے جو تخت کو ہلا دے
میرے ہم خیال ہوں میرے ہم سفر
تصور میں میرے ایسی مجھ کو ضیاء دے
مجھ کو گر مان ہے تو تیری رحمت پر
خدایا تو ہی کوئی مجھ کو آسرا دے
میرا شعور تو ٹھہرا پابند سلاسل
اپنے فضل سے ہی تو کوئی مجھ کو پتا دے