مرثیہ ۔۔۔۔۔ اپنے دوست عظیم کی یاد میں
ہر اور مسرتوں کا دھارا ہوگا
تاحدِنظر بہاروں کا نظارہ ہوگا
گھر ہی نہیں دل بھی منور ہوۓ ہونگے
جب خدا نے زمیں پر یہ نور اتارا ہوگا
رقتِ خوشی سے أنکھیں نم ہوٸی ہونگی
ہر لب نے اک نۓ لقب سے پکارا ہوگا
ماں نے چمٹا کر کٸ خواب سجاۓ ہونگے
بابا کی أرزٶں کو تو نے ابھارا ہوگا
بھّیا کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھا ہوگا
دوڑ کر أتا ہوگا جب بھی پکارا ہوگا
مادر پدر نے اُمیدیں بھی باندھی ہونگی
پڑھ لکھ کر ہمارا تو سَہارا ہوگا
ہاں کچھ دیر تو زندگی چلی بھی ایسی
کیا خبر تھی کہ پھر یوں بھی خسارہ ہوگا
تونے یک دم رُخ امیدوں کا موڑ دیا
خود سے جڑے سبھی خوابوں کو توڑ دیا
جو خود بناۓ جو قدرت نے بخشے تجھ کو
سبھی رشتوں کا دامن جَھٹ چھوڑ دیا
ہم نے سوچا تھا کیا خُدا کی منشا کیا تھی
اس سب میں بھلا تیری بھی خطا کیا تھی
سب مل کر بھی نہ کچھ کرسکے ہم بھی
امرِالہٰی کے أگے جھکے ہم بھی
تُو تو گیا پر جی ہم بھی نہ سکے
تیرے ساتھ پَل پَل مرے ہم بھی
مضطرب اشک رہاٸی کو تڑپتے رہے
سانس اکھڑتی رہی لفظ اٹکتے رہے
ہر پَل لگتا تھا أخری ہوگا
سخت جان دل پھر بھی دھڑکتے رہے
اب تیرے واسطے ہیں دراز دستِ دُعا
مغفرت کامل و بلند مرتبہ بخشے خدا
گمانِ غالب میں یہ کیونکر نہ ہوا ہوگا
أہِ جاں ستاں میں تو کس قدر تڑپا ہوگا
بخار شب بھر کا مٹادیتا ہے خطاٶں کو
رَشک کرتا ہوں اب کیا ترا مرتبہ ہوگا
مرضِ شکم میں جہاں سے گیا ہے تو
شہادت کے درجوں میں تیرا درجہ ہوگا
ترے لۓ ہر دل سے ہی دعا نکلی ہوگی
کتنا چاہتے ہیں تجھے سب تو کتنا پیارا ہوگا
لحد نے بھی خوشی سے جگہ دی ہوگی
باغ جنت کا تیرے لۓ سنوارا ہوگا
چشمِ انجان بھی اشک بار ہوٸی ہوگی
جب قبر میں تجھ کو اتارا ہوگا
ترے بعد ہیں اب تری یادیں بس
سنگ ان کے ہی اب گزارا ہوگا
وقت موت کا ہر نفس کو متعین ہے
جانے کب سمت اپنی اشارہ ہوگا
عظیم جاتے ہوۓ دے گیا ہے پیام اخلاق
میں تو چلا ، سوچو کیا تمہارا ہوگا