مرثیہ
Poet: اخلاق احمد خان By: Akhlaq Ahmed Khan, Karachiمرثیہ ۔۔۔۔۔ اپنے دوست عظیم کی یاد میں
ہر اور مسرتوں کا دھارا ہوگا
تاحدِنظر بہاروں کا نظارہ ہوگا
گھر ہی نہیں دل بھی منور ہوۓ ہونگے
جب خدا نے زمیں پر یہ نور اتارا ہوگا
رقتِ خوشی سے أنکھیں نم ہوٸی ہونگی
ہر لب نے اک نۓ لقب سے پکارا ہوگا
ماں نے چمٹا کر کٸ خواب سجاۓ ہونگے
بابا کی أرزٶں کو تو نے ابھارا ہوگا
بھّیا کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھا ہوگا
دوڑ کر أتا ہوگا جب بھی پکارا ہوگا
مادر پدر نے اُمیدیں بھی باندھی ہونگی
پڑھ لکھ کر ہمارا تو سَہارا ہوگا
ہاں کچھ دیر تو زندگی چلی بھی ایسی
کیا خبر تھی کہ پھر یوں بھی خسارہ ہوگا
تونے یک دم رُخ امیدوں کا موڑ دیا
خود سے جڑے سبھی خوابوں کو توڑ دیا
جو خود بناۓ جو قدرت نے بخشے تجھ کو
سبھی رشتوں کا دامن جَھٹ چھوڑ دیا
ہم نے سوچا تھا کیا خُدا کی منشا کیا تھی
اس سب میں بھلا تیری بھی خطا کیا تھی
سب مل کر بھی نہ کچھ کرسکے ہم بھی
امرِالہٰی کے أگے جھکے ہم بھی
تُو تو گیا پر جی ہم بھی نہ سکے
تیرے ساتھ پَل پَل مرے ہم بھی
مضطرب اشک رہاٸی کو تڑپتے رہے
سانس اکھڑتی رہی لفظ اٹکتے رہے
ہر پَل لگتا تھا أخری ہوگا
سخت جان دل پھر بھی دھڑکتے رہے
اب تیرے واسطے ہیں دراز دستِ دُعا
مغفرت کامل و بلند مرتبہ بخشے خدا
گمانِ غالب میں یہ کیونکر نہ ہوا ہوگا
أہِ جاں ستاں میں تو کس قدر تڑپا ہوگا
بخار شب بھر کا مٹادیتا ہے خطاٶں کو
رَشک کرتا ہوں اب کیا ترا مرتبہ ہوگا
مرضِ شکم میں جہاں سے گیا ہے تو
شہادت کے درجوں میں تیرا درجہ ہوگا
ترے لۓ ہر دل سے ہی دعا نکلی ہوگی
کتنا چاہتے ہیں تجھے سب تو کتنا پیارا ہوگا
لحد نے بھی خوشی سے جگہ دی ہوگی
باغ جنت کا تیرے لۓ سنوارا ہوگا
چشمِ انجان بھی اشک بار ہوٸی ہوگی
جب قبر میں تجھ کو اتارا ہوگا
ترے بعد ہیں اب تری یادیں بس
سنگ ان کے ہی اب گزارا ہوگا
وقت موت کا ہر نفس کو متعین ہے
جانے کب سمت اپنی اشارہ ہوگا
عظیم جاتے ہوۓ دے گیا ہے پیام اخلاق
میں تو چلا ، سوچو کیا تمہارا ہوگا
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں






