مرنے سے بھی پہلے مر گیے تھے
جینےسے کچھ ایسے ڈر گیے تھے
راستے میں جہاں تلک دیے تھے
سارے میرے ہم سفر گیے تھے
آنکھیں ابھی کھل نہیں سکی تھیں
اور خواب میرے بِکھَر گیے تھے
جب تک نہ کھلا تھا اَس کا وعدہ
موسم میرے بےسمر گیے تھے
اب تک وہی نشہ پذیرایی مسعود
کیا جانیں ہم کدھر گیے تھے