مری تو آنکھیں جدائی میں یوں ابلتی رہیں
نہیں ہے آگ بجھی بجلیاں یوں گرتی رہیں
نہیں ہے کوئی بھی درمان عشق کا تو یہاں
کسی نے بھی نہ سنی چیخیں جو نکلتی رہیں
خمار عشق تھا جو ہجر بھول نہ پایا
سبھی وہ یادیں مرے دل میں ہی مچلتی رہیں
خوشی کے لمحے نہیں تھے نصیب میں میرے
جدائی ہجر کی مجھ کو سزائیں ملتی رہی
نہیں رہا مرا ہمدم وہ بے وفا گیا بن
جوانی ختم ہوئی پر یہ عمریں بڑھتی رہیں
تلاش کرتا رہا ہم سفر ملا ہی نہیں
یہ خواہشیں تو محبت میں یوں بدلتی رہیں