مری محنت سے دنیا چل رہی ہے
مرے آنگن میں غربت پل رہی ہے
میں ان دانشوروں سے پوچھتا ہوں
یہ کالی رات کب تک ڈھل رہی ہے
تمہاری خواب گہ میں شمع بن کر
ہماری زندگانی جل رہی ہے
ٹپکتا ہے کرائے کا مکاں بھی
مری دیوارِ جاں بھی گل رہی ہے
بدلنے کی نہیں ہے میری حالت
وہی ہے آج بھی جو کل رہی ہے
لباس ِمفلسی پہنا ہوا ہے
غمی چہرے پہ کالک مل رہی ہے