مرے درد کی کہانی ترے جور کا فسانہ
ہے لہو ترنگ نغمہ یہ نشاط گیں ترانہ
مرے ہم جلیس پھولو مرے ہم نوا عنادل
تری ٹہنیوں پہ کل تک تھا مرا غریب خانہ
میں مقیم گلستاں ہوں مجھے جانتے نہیں ہو
ابھی چار دن ہوئے ہیں کہ جلا ہے آشیانہ
تو ستم نصیب طائر کہاں جائے گا فضا سے
کہ متاع باغباں اب ہے چمن کا آب و دانہ
بڑی مشکلوں سے دولت یہ لگی ہے ہاتھ تجھ کو
کہیں لٹ نہ جائے پیارے ترا قیمتی خزانہ
نہ تو کف ہے خون میں تر نہ گواہیاں میسر
مرے مہرباں مبارک یہ قتال ماہرانہ
کہو بجلیوں سے جا کر کہ وہ آئیں ضد سے میری
میں رکھوں گا اس چمن میں یہیں اپنا آشیانہ
وہ خزاں کے روز و شب تھے جو بہار سے تھے بہتر
کہ غرض سے بے غرض تھا سحرؔ اپنا دوستانہ