مرے دوست دشمن یہاں اور بھی ہیں
ابھی چلنے کے تو نشاں اور بھی ہیں
اکیلا نہیں مبتلا ہجر غم میں
بچھڑنے تو والے جواں اور بھی ہیں
تری چلتی ہے اس جہاں میں کہوں تم
سوا اس کے سجنا جہاں اور بھی ہیں
ملا کیوں نہیں یار انصاف مجھ کو
مرے جیسے تو بد گماں اور بھی ہیں
زمانے کی تم بھیڑ میں جاؤ گے پھنس
چھپے ہوئے مخفی مکاں اور بھی ہیں
محبت عداوت شرافت بنی ہے
ابھی زیست کے امتحاں اور بھی ہیں
اکیلا نہیں رو رہا ہوں شہزاد
ادھر سے ادھر سسکیاں اور بھی ہیں