قسم ان تنگ گلیوں کی‘ جہاں مزدور رہتے ہیں
مسرت اور خوشی سے یہ ‘ ہمیشہ دور رہتے ہیں
بہت ذلت بہت رسوائی ہے‘ ان تنگ گلیوں میں
یہ رہنا تو نہیں چاہیں‘ مگر مجبور رہتے ہیں
کوئی تفریح ان کو‘ کس طرح یارو میسر ہو
یہ اپنے کام سے تھک کر ہمیشہ‘ چور ریتے ہیں
تمنا عمر بھر پوری خدایا‘ کیوں نہیں ہوتی
اگرچہ خواہشوں سے ان کے دل‘ معمور ہوتے ہیں
لگاتے ہیں دلوں میں زخم یہ‘ ان چھوٹے لوگوں کے
ہمارے معاشرے میں ایسے بھی ‘ ناسور رہتے ہیں
نوید ان کو یقینا حشر میں اللہ پوچھے گا
جو لوگ ذہنوں میں پالے ‘ غرور رہتے ہیں