میں بھٹکا ہوا اک مسافر
رہ و رسمِ منزل سے نا آشنا
تعاقب میں اپنی ہی پرچھائیوں کے رواں دواں
کبھی راہ چلتے ہوئے خاک کی رُوح پرور کشش
آنکھوں کی بینائی و کانوں کی سماعت نے
محسوس کی ہی نہیں
مری راہ پر مٹ چکے ہیں
سفر کے اشارات سارے
شاید میں اکیلایونہی
اپنی پرچھائیوں کے تعاقب میں حیران پھرتا رہوں
رہ و رسمِ منزل سے نا آشنا
بھٹکا ہوا اک مسافر