مسلسل خوف رہتا ہے، برابر سوچتی ہوں میں
سدا بےرحم تنہائی میں چھپ کر سوچتی ہوں میں
تری راہوں میں کٹتا ہے مرا ہر ایک دن جانم!
ترے بارے خدا شاہد ہے شب بھر سوچتی ہوں میں
کوئی تجھ سے تعلق بھی نہیں ہے اب زمانے میں
میں خود یہ سوچتی ہوں آج کیونکر سوچتی ہوں میں
کوئی سوچے مرے حجرہء خلوت میں کوئی آئے
کوئی بدلے مری آنکھوں کے تیور سوچتی ہوں میں
ابھی دردِ جدائی میں بہت پیاسی مسافت ہے
تُو دریا کہہ رہا ہے اب سمندر سوچتی ہوں میں
مرے عکسِ محبت کو تو صحرائی ہی رہنے دو
میں ہو جاؤں انہیں راہوں میں بنجر سوچتی ہوں میں
مرا تجھ سے کوئی بھی رابطہ اب تک نہیں وشمہ
تو کیسی ہے کہاں پر ہے وہ منظر سوچتی ہوں میں