نور سحر سے چھین لیں شوخی، شرارتیں
بادِ صباء کی لوٹ لیں نکہت، صباحتیں
پھولوں کے پیرہن بھی دریدہ لہو لہاں
کلیوں کے بانکپن کی کچل دیں نزاکتیں
سورج نے پھر سے اوڑھ لی گرہن زدہ عباء
تاروں نے اس سے توڑ دیں ساری رفاقتیں
خوشیوں کے گیت چھین کر نوحے تھما دیئے
چبھتی رہیں زباں پہ ستم کی شکایتیں
جب سے سجے ہیں ظلم کے بازار شہر میں
رنگ لا رہی ہیں پھر سے پرانی عداوتیں
الله اور رسول کے ناموں کی آڑ میں
طالب ہی ڈھا رہے ہیں مسلسل قیامتیں
ہونٹوں پہ پھر سے خوف کے پہرے لگا دیئے
زنداں کی نذر ہوگئیں پلکوں کی آہٹیں
عرصہ ہوا فرعون کو غرقاب ہوچکے
اب بھی نظر میں آتی ہیں اسکی شباہتیں
ظالم یذید مٹ گیا نا م و نشاں کے ساتھ
آتی ہیں کربلا سے ابھی تک شہادتیں
ہاتھوں کی انگلیوں کو بنا کر قلم اشہر
لکھی ہیں میں نے خون رلاتی حکایتیں