مسکراہٹوں پہ حق ہمارا بھی ہے
کوئی تو اداسیوں سے جا کے کہے
کھلنا ہمارا مقدر بھی ہے
کوئی تو خزاؤں سے جا کہے
اندھیرا رہے آخر کب تلک
کوئی تو جگنؤں سے جا کہے
نفرت کی وادی میں اب تو دم گھٹے
کوئی تو محبتوں سے جا کہے
زمین کی اندھیر نگری میں اتر آؤ
کوئی تو ستاروں جا کے کہے
اپنوں کے سہارے اپاہج کر چکے
کوئی تو بیساکھیوں سے جا کے کہے
اب کے برس غم زیادہ ملے دامن میں
کوئی تو آنسوؤں سے جا کے کہے