مشہور ہو کہ بھی ہم گمنام ہی رہے
پاکر بہت سا نام بھی بےنام ہہی رہے
مٹی میں مل گئے اک پھول کیلئے
ہم خاک ہوئے اور وہ گلفام ہی رہے
خود کو اجالنے کت لئے چاند کے تلے
پہروں کھڑے رہے ہیں پر شام ہی رہے
بے نام منزلوں کی تنہا مسافتوں پہ
ہم آج بھی محو سفر مدام ہی رہہے
عظمٰی حیات اپنی ایسے بسر ہوئی
خوشیوں کی آرزو میں آلام ہی رہے