مظفر مجھ سے کہتا تھا
کہ تیری سوچ میں ہے کیا؟
یہ تو کیا لکھتا رہتا ہے
تجھے نہ جان پایا ہوں
کہا میں نے ہنس کے یار
تو شاید سچ ہی کہتا ہے
میں بھی کہاں خود کو
ٹھیک سے پہچان پایا ہوں
بنایا عکس جو میں نے
الگ ہی شخص وہ نکلا
میری سوچوں کے بلکل ہی
برعکس وہ نکلا
میں جتنا پاس جاتا ہوں
وہ اتنا دور جاتا ہے
ہاں اس کے ایسا کرنے سے
میرا دل ٹوٹ جاتا ہے
میں جتنی بات کرتا ہوں
نظر انداز کرتا ہے
خدا جانے وہ کس کے کہنے پہ
یہ کام کرتا ہے
مظفر مجھ سے کہتا تھا
تو ٹینشن چھوڑ دے ساری
جو تو نے روگ پالا ہے
اب اس سے تو کنارہ کر
ہاں اس وقت اس کی باتیں
مجھکو کڑوی لگتی تھیں
مگر اب سوچتا ہوں میں
وہ شاید سچ ہی کہتا تھا
کوئی آنسو میری آنکھوں سے
جب چپ چاپ بہتا ہے
مجھے تب یاد آتا ہے
مظفر مجھ سے کہتا تھا