معاشی بے ثباتی کون جانے کب بدلتی ھے
Poet: (ذیشان نور صدیقی (ذیش By: Zeeshan Noor Siddiqui (ZEESH), Karachiمعاشی بے ثباتی کون جانے کب بدلتی ھے
پرانے فریم میں تصویر جانے کب بدلتی ھے
کسی کے پاس لاکھوں! تو کسی کے گھر میں فاقہ ھے
مقدّر کی یہ بیجا دین، جانے کب بدلتی ھے
اگر انسان ھے محکوم تو حاکم بھی انساں ھے
حکومت آدمی کی آدمی پر! کب بدلتی ھے
رعونت اور تکبّر خاکی جسموں پر نہیں جچتا
خدا جانے کہ فرعونوں کی حالت کب بدلتی ھے
جو خود اولاد والے ھیں، وه ٹھکراتے ھیں بچوں کو
خداونداں! تیرے بندوں کی حالت کب بدلتی ھے
کہیں نیلام عزت کے، کھلے بندوں بھی ھوتے ھیں
جو حالت دیکھی نہ جائے، وه حالت کب بدلتی ھے
صبح اور شام کو چہرے بدل جاتے ھیں لوگوں کے
میرے دل میں جو صورت ھے، نہ جانے کب بدلتی ھے
قیامت خیز لمحوں میں بھلا زنده ھیں کیسے ذیش
انھیں جینے کی عادت تھی، یہ عادت کب بدلتی ھے
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم






