اب شاید تُو خوش ہو گا ‘ میں یہاں چلی آئی
جہاں کوئی نہ خوش رہ پایا ‘ یہ کہاں چلی آئی
ہائے نکال سکتی کاش میں اُسے دل سے
وہ بھی نہ مل سکا ‘ یہاں بھی بے ایماں چلی آئی
نہ سوچا قیامت کا ‘ نہ ساماں کیا آخرت کا
عمر بھر آرزو کی اُس کی‘ بے سروساماں چلی آئی
نہیں حق پھولوں پہ‘ ہیں کانٹے سبھی اپنے لئے
یہ کدھر کی سیر کی‘کونسے گلستاں چلی آئی؟
جاں تو نثار کی اُس ہرجائی پہ‘یہ معجزہء رب
کیسے یہاں بھی لے کے وہی جاں چلی آئی
تیری دُنیا نے کئے مجھ پہ ستم بڑے اے خُدا!
تیرے پاس لے میں چھوڑ کے سارا جہاں چلی آئی
تجھے تو بُھولی تھی کائنات ساری‘کیا سے کیا ہوا؟
ہائے پُوچھتا ہے خُدا‘اب کیوں پشیماں چلی آئی؟
تجھے کیا بتاؤں میرے مالک! مجھے معلوم نہ تھا
مجھےپھر سے گوارہ کر لے‘سمجھ لے ناداں چلی آئی