مقدر میں بچھڑنا ہے تو لوگ ملتے کیوں ہیں
مرجھا جانا مقدر ہے تو پھول کھلتے کیوں ہیں
نگاہیں چار ہونا پھر جدا ہو جانا قسمت ہے
نگاہوں نے بدلنا ہے تو نین ملتے کیوں ہیں
دریدہ دامنی کب تک رفو گر سیتے جائیں گے
دوبارہ چاک ہونے ہیں تو زخم سلتے کیوں ہیں
مسافر، اجنبی راہوں کے ہمراہی بن جاتے ہیں
بچھڑ جاتے ہیں راہوں میں راہی ملتے کیوں ہیں
اجنبی آشنا بن کر ۔۔۔۔۔ آشنا اجنبی بن کر
ملتے ہیں جدا ہوتے ہیں آخر ملتے کیوں ہیں
یہی اسرار تو اب تک مجھے ہر دم کھٹکتا ہے
ساتھ جب چھوٹ جانا ہے مسافر ملتے کیوں ہیں
بیچارے دل کا بھی تو بس یہی اک رونا ہے عظمٰی
ستارے جب نہیں ملتے تو پھر دل ملتے کیوں ہیں