مقروض ہوں میں جہاں میں سب کا
ہر شخص نے مجھ کو سِکھایا بہت ہے
فقط الفاظ نہیں، یہ حقیقت ہے میری
ہاں، جذبات کو اپنے چُھپایا بہت ہے
اوڑھا ہے بڑی خوب یہ لباسِ خامُشی
پاس اگرچہ الفاظ کا سَرمایہ بہت ہے
گُزریں گر یہ دِن تو گُزریں گے کیسے؟
دُنیا والوں نے مُجھ کو ستایا بہت ہے
دُنیا کی محفلوں میں جانا ہی کم ہوا
غمِ اُلفت نے پاس اپنے بِٹھایا بہت ہے
آیئنے میں آج دیکھ کر احساس یہ ہوا
اِسی شخص نے مُجھ کو رُلایا بہت ہے
کہتے ہیں کہ بہت ہی رنگین ہے دنیا
ہر شخص نے نیا رنگ دکھایا بہت ہے
چل دۓ سبھی آزمائش میں ڈال کر
حَسبِ توفیق سب نے آزمایا بہت ہے
ہوں بس مُعجزہِ حَق کی تلاش میں
میں نے رَب کو دُکھ اپنا سُنایا بہت ہے