شبُ و روز مقید کر رکھا ہے اُس نے
سوچوں کے اک حصار میں چنوا کر مجھے
پروانا پھر آزادی کا مجھ کو عطا کیا
لطف و کرم کی اُس کے ملی یہ سزا مجھے
جس کو وفا سے بھول کے تعلق نہ تھا کبھی
وہ بھی جفا کے طعنے اب دیتا ہے مجھے
حالِ دل اپنے سے کہنا اور خود دینا جواب
باوجودِ تیری قربت سب پڑا سہنا مجھے
اُس کی چاہت کے خزانے ساری دینا کے لئے
لائق اپنی نفرتوں کے ہے فقط سمجھا مجھے
ہم تو اُس ناز کے تھے ناز اُٹھانے والے
حوالے کر دیا اُس نے حوادث کے مجھے
ہوں میں اب بھی اُس کی اُلفت کا اسیر
یہ الگ بات چاہت نے کیا خوار مجھے
یار احمر کیا کہوں کیسے گزاری ہے حیات
تلخیاں اُس وقت کی اکثر رولاتی ہیں مجھے