مل گیا تھا ساحل مگر موجوں کو نہ دیکھا گیا
ان کی آہیں دیکھ کر مجھ کو واپس ہونا پڑا
ہاں کہا تھا پتھر جگر رکھتا ہوں میں
ڈلی جو نظر چشمے پر پھر مجھے رونا پڑا
دیکھا نازک پھول کو خار پر سر رکھے ہوئے
بعد دیکھنے کے سب کچھ کانٹوں پر سونا پڑا
میں ناداں اڑتی کے پیچھے جو گیا
جو ہاتھ میں تھا اس سے بھی ہاتھ دھونا پڑا