مل گیا فرقتوں کا فساد نہیں ٹوُٹتا
مجھ سے ہی میرا عتاب نہیں ٹوُٹتا
ہو ہجر کی بات تو اور بات ہے مگر
اپنے کردار پیشے تو جلاد نہیں ٹوُٹتا
کہیں تاراجی میں رنجشیں بڑہ گئیں
یہاں تو افلاس سے اعتماد نہیں ٹوُٹتا
یہ آنکھوں کے تیر تو کتراکے بھی گذریں
پر اپنے نشانے سے عقاب نہیں ٹوُٹتا
عشق پیچاں تو کچھ اور طریقے ہیں
حجابوں سے کبھی حجاب نہیں ٹوُٹتا
چلو جنت کے خواب پہ جی لیتے ہیں مگر
اس زندگی کا رہا حساب نہیں ٹوُٹتا