Add Poetry

ملا تو چہرے پہ سالوں کا غبار تھا.

Poet: سیدہ سعدیہ عنبر جیلانی By: سیدہ سعدیہ عنبر جیلانی, فیصل آباد، پاکستان.

ملا تو چہرے پہ سالوں کا غبار تھ
وہ شخص جس کے جینے کا اپنا معیار تھا.

شکوے شکایتں کسے یاد رہی تھیں
تھاما جو ہاتھ اسکا آنسوؤں کا انبار تھا.

گزری تیرے بغیر کس رنگ میں نہ پوچھ
سانس تھی کہ گویا کوئی شرار تھا.

الفتوں کا موسم مہربان تھا کبھی
وقت بھی کبھی ہم پہ نثار تھا.

برباد کر کے شہر کو مصلے پہ جھک گی
نیک تھا بہت وہ عبادت گزار تھا.

الجھا ہوا سا خود میں روٹھا ہوا ہے جیسے
وہ شخص اپنی ذات میں اک اسرار تھا.

خاموشیوں میں ڈوب کر جو خود کو کھو گی
محبتوں کا شاید وہ طلب گار تھا.

ہر قدم بے یقیں ہے ہر سانس بے وفا،‏
رخصت ہوا جو میرا اعتبار تھا.‏

کب نبھا سکا ہے کسی سے آج تک،‏
وقت تو سدا سے بڑا عیار تھا‏

حالات ہی بغاوت نہ کر گئے ہوں،‏
پیماں تو اس کا بڑا میرا طرف دار تھا.‏

سنچتے رہے ہم جسے خون ء جگر سے،‏
نفرتوں کا مجھ سے وہ سپہ سالار تھا.‏

یہ دیکھ کر تکلیف کچھ اور بڑھ گئ
میرا ستم گر ہی میرا انہثار تھا.

ہم ہی معیار سے شاید کہ گر گئے،‏
ہمارے سواء وہ سب سے وفادار تھا.

ٹوٹ کر عنبر کوئی رویا تھا اسطرح
جیسے کسی طوفان کا کوئی اتار تھا.
‎ ‎

Rate it:
Views: 316
09 Jan, 2015
Related Tags on Sad Poetry
Load More Tags
More Sad Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets