سہم جائیں جو ہو ا کی سرسراہٹ سے
کیا جئے گے وہ مر جاتے ہیں آہٹ سے
گر جاتے ہیں وہ در و دیوار اچانک
جن کی بنیاد اٹھی ہو ملاوٹ سے
دو قدم ہی رہے دوست ہمسفر
گریں منہ کے بل وہ اب تھکاوٹ سے
دلِ ویران کی وحشتیں بڑھ رہی ہیں
جم رہی ہےمحفل بڑی سجاوٹ سے
یہ ہنسی بھی کیا لوگوں پہ ہنستا ہے
کفر ٹپکتا ہے ایسی مسکراہٹ سے