ملی ہے راحت ہمیں سفر سے
تھکن تو لے کر چلے تھے گھر سے
ابھی پلک پر پلک نہ بیٹھی
یہ خواب آنے لگے کدھر سے
فلک پہ کچھ دیر چاند ٹھہرا
وداع لیتے ہوئے سحر سے
طویل ناول میں زندگی کے
تمام قصے ہیں مختصر سے
وہ دیکھتے دیکھتے ہی اک دن
اتر گیا تھا مری نظر سے
اسی گلی میں نہیں گئے بس
گزر گئے ہم ادھر ادھر سے
گزر بسر کی ہے کوئی صورت؟
یہ صرف ہوگی گزر بسر سے
دھوئیں سے آتشؔ جلیں گی آنکھیں
جلے نہیں ہم اس ایک ڈر سے