ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ
اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ
میسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو
نہیں ہے بندۂ حر کے لیے جہاں میں فراغ
فروغِ مغر بیاں خیرہ کر رہا ہے تجھے
تری نظر کا نگہباں ہو صاحبِ مازاغ
وہ بزم عیش ہے مہمانِ یک نفس دو نفس
چمک رہے ہیں مثالِ ستارہ جس کے ایاغ
کیا ہے تجھ کو کتابوں نے کور ذوق اتنا
صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئے گل کا سراغ