راہ کٹھن ھے دور ہے منزل جسم پہ طاری لرزا سا ہے
ایک تمہاری آس پہ قأم دل آوارہ چل نکلا ہے
ٹھرو ٹھرو لمحو ٹھرو ایسی بھی آخر کیا جلدی
زکر ھمارا ان کی محفل میں دوبارہ چل نکلا ہے
ہلکی ہلکی حدت شمسی نہ کویٔی محور نہ کویٔی منزل
دھونڈنے اپنے ہی محور کو اک سّیارہ چل نکلا ہے
حسن کا پرتو عشق کا جلوہ تیری یاد کی خشبو آییٔ
دل میں ھمارے غزل کی مانند دھیان تمھارا چل نکلا ہے
محو تماشہ مست مۓ جاں پروانہ تو دیکھا ہوگا
دیکھنے اس دیوانۂ دل کو وہ انگارہ چل نکلا ہے
پیش نظر ہو صورت جاناں جاں بلب کیونکر نہ آۓ
ایک ایسا پیمانہ بھرنے یہ بنجارہ چل نکلا ہے
گاہے بہ گاہے زکر تمھارا یہ افسانہ کرتا جاۓ
لفظ نیا اک حرفِ تمنا اک استعارہ چل نکلا ہے
ہم نے ہی اپنے دل میں مسافرؔ کیا ارمان سجا رکھے ہیں
پھر سے لیۓ امّید کی شمع یہ بیچارہ چل نکلا ہے