ہم منظر حق کا ہر پہلو دُنیا کو دکھا کر دَم لینگے
ہم قال اللہُ قال رسول دُنیا کو سُنا کر دَم لینگے
ہم وقت کے بہتے دریا میں طوفان اُٹھا کر دَم لینگے
یہ بات عیاں دُنیا پر ہم پھول بھی ہے تلوار بھی ہے
یا بزم جہاں مہکائیں گے یا خوں میں نہا کر دَم لینگے
جو راہ دکھائی ہے ہم کو گیلانی اور حکمت قاضی نے
اُس راہ پے ہم آزادی کے منظر تک جاکر دَم لینگے
فرعون بنے جو پھرتے ہیں ڈھاتے ہیں ستم کمزوروں پر
اُن سرکش جابر لوگوں کو قدموں میں جھکا کر دَم لینگے