(زندگی کی حصے میں موت کی اک حقیقت دکھاتی تحریر)
رکو
میری آواز سنو
کتنے شکوے کرتی ہے
اکھڑی اکھڑی
مدھم مدھم
حال میرا بتلاتی ہے
میرے لبوں پہ سن لو نہ
درد کا نغمہ بجتا ہے
میری زبان پہ بھی اب تو
آہ و فغاں کا نغمہ ہے
چلو چھوڑا
تم کیا سنو گے؟
رکو
میری آنکھوں میں جھانکو
خوف کے کتنے سائے ہیں
جانے کتنے
سیاہ مناظر
یہ تم کو دکھلاتی ہے
میں نے سنا ہے آنکھوں سے
دل کو ٹٹولا جاتا ہے
تم بھی میرے دل کو ٹٹولو
کتنا یہ جذباتی ہے
چلو چھوڑا
تم کیا دیکھو گے؟
رکو
محسوس کرو نہ
فضاء میں کتنی گھٹن ہے
دھیمی دھیمی
سانسیں سب کی
زہر ہی اب پھیلاتی ہیں
تم کو محسوس ہوا کیا؟
گردن پہ تمھاری گرفت ہے
گر کس دوں اس کو
آنکھیں بند ہوجاتی ہیں
چلو چھوڑا
تم کیا محسوس کرو گے؟
آخر تم تو زندہ ہو