لہولہان وطن کا یہ سماں ہے
کہ موت بھی اب لرزاں ہے
لٹایا تھا جو اس سرزمیں پر
وہی خون آج کتنا ارزاں ہے
اب کیا پوچھوں کافروں سے
مرا قاتل کلمہ پڑھتا مسلماں ہے
حیراں ھوں ان دستاروں کے پیچھے
نفرتوں کا یہ کیسا سلسلہ رواں ہے
ظلم، ظالم اور مظلوم
قتل، قاتل اور مقتول
جبر، جابر اور مجبور
ہر زبان پر بس یہی بیاں ہے
جوان بیٹے کی لاش کو گھورتا
یہ بوڑھا باپ آج کتنا ناتواں ہے
خشک آنکھوں، بےآواز آہوں میں
ماں کی اجڑی گود کا ماتم پنہاں ہے
مگر اے امیر شہر!
تم نہ آزردہ ھونا
تم نہ بےچین ھونا
اس سارے قصّے سے
تم کو کیا لینا دینا
تم جشن مناؤ محلوں کے باسیوں
کیا ہوا جو آج شہر میں موت رقصاں ہے
( قیس )