موتی ہار پروئے ہُوئے
دن گزرے ہیں روئے ہُوئے
نیند مسافر کو ہی نہیں
رستے بھی سوئے ہُوئے
جشنِ بہار میں آ پہنچے
زخم کا چہرہ دھوئے ہُوئے
کبھی نہ کشتِ جاں اُجڑی
خواب تھے ایسے بوئے ہُوئے
اس کو پا کر رہتے ہیں
اپنے آپ سے کھوئے ہُوئے
آج بھی یونہی رکھے رہے
سارے ہار پروئے ہُوئے
کتنی برساتیں گزریں
اُس سے مل کر روئے ہُوئے