موج مستی میں پھرتی ہے باد صبا کیوں
ناز کرتے ہیں ہم کو مٹانے والے کیوں
زینہ زینہ چلتے رہے زیست کی راہ پہ ہم
آخر رقابت یہ زمانے والے رکھتے ہیں کیوں
دل حسرتوں میں ڈوب گیا کب خبر ہوئی ہمیں
گناہ جو کیا نہیں پھر اسکی سزا ملتی ہے کیوں
پیغام اجل کا دریچہ کھلا ہے اب تو یہاں
افسوس کے خود سے شکایت کریں تو کیوں
دیار میں ہم کو کوئی ٹھکانا نا ملا تو کیا
آخر دیار غیر سے شکوہ کریں تو کیوں