موم بن کر یوں پگھلتے رہے
عمر بھر شمع کی مانند جلتے رہے
چراغاں کرنے کو تیری دنیا میں
اندھیروں میں تنہا بھٹکتے رہے
خود کو تو کھبی آئینے میں نہ دیکھ پائے
کرچیاں اپنے ہاتھوں سے سمیٹتے رہے
دل کو بھی کہیں صبر و قرار نہ ملا
ہجر جاناں میں ہر لمحہ تڑپتے رہے
تیری راہوں میں پھول بکھیرنے کو
کانٹے پلکوں سے اپنی چنتے رہے
آسماں بھی رو پڑا یہ درد دیکھ کر
بارشوں کے موسم میں سسکتے رہے
غم حیات کے کہیں بڑھا نہ دے
اس لیے ہر خوشی سے ڈرتے رہے