کیا بتاؤں موم کو
پتھر بنایا کیسے ہے
اس نے ہمارے
دل کو دکھایا کیسے ہے
دے کر زخم پے زخم
وہ کھلکھلایا کیسے ہے
ہمیں کانٹوں پے چلتا
دیکھ کر وہ گھبرایا کیسے ہے
کیا بتاؤں
ہم سے بے خبر ہوکر
اس نے خود کو
کاموں میں الجھایا کیسے ہے
ہو کر ہم سے ہی خفا
اس نے ہمیں آزمایا کیسے ہے
کیا بتاؤں
آنکھوں کو پیاس دے کر
اس نے دیدار پے ترسایا کیسے ہے
خود ہی کر کے
اقرار ہم سے پھر
اس نے بھلایا کیسے ہے
کیا بتاؤں
ہماری صداؤں پے
اس نے ہمیں ٹھکرایا کیسے ہے
ہماری محبتوں پے
تلخی کرنے والے نے
ہمیں ستایا کیسے ہے
دیکھا کر خواب سہانے پھر
حقیقت کو جھٹلایا کیسے ہے
ہم نے جیسے
اپنے ہر لفظ کا عنواں کہا
وہی ہمیں اپنا کہنے سے
شرمایا کیسے ہے