مَظلُوم پہ جو ظُلم رَوا ہونے لگا ہے
ہر شخص ہی لگتا ہے خُدا ہونے لگا ہے
اِنسان ہی اِنسان کی ہے جان کا دُشمن
مولٰی تِری دُنیا میں یہ کیا ہونے لگا ہے
مُمکِن ہے بَرَس جاۓ یہ اسمان بھی گُونگا
مَظلُوم جو پھانسی کی سزا ہونے لگا ہے
آثار قیامت کے نَظَر آنے لگے ہیں
اِنسان جو اِنساں کا خُدا ہونے لگا ہے
پِهر آج ضرورت ہے حُسین اِبنِ علیؓ کی
اِنسان پہ پِهر ظُلم بڑا ہونے لگا ہے
مولٰی مُجھے ہمت دے کہیں ٹُوٹ نہ جاؤں
لگتا ہے وہ اب مُجھ سے جُدا ہونے لگا ہے
سِینے سے مِرے تُو اے غَمِ یار نکل جا
دِل قیدِ محبت سے رِہا ہونے لگا ہے
حیران ہوں باقرؔ تُو جو تھا ضَبط کا پیکر
محبُوب کا کیوں تُجھ سے گِلہ ہونے لگا ہے