مُحبت کی حدّوں سے دُور جانا چاہتا ہے دل
کسی اندھیر نگری میں ٹِھکانہ چاہتا ہے دل
دھڑکنے سے کبھی باغی، کبھی بے دل دھڑکتا ہے
دھڑکنے سے مُکرنے کا بہانہ چاہتا ہے دل
تیرا ملِنا بھی جیون کا سُنہری دَور تھا لیکن
ذرا اِس سے بھی پہلے کا زمانہ چاہتا ہے دل
یہ کیسا عشق ہے چند آنسوؤں، آہوں کے بدلے میں
میری ہر سانس پہ ہی حق جتانا چاہتا ہے دل
بھلے رُستمؔ علی! مُجھ کو زمانہ بے وفا کہہ دے
پر اب رونے پہ تیرے، مُسکرانا چاہتا ہے دل