آج پاس سے وہ میرے مہربان گزر گئے ہیں
لگتا ہے مجھے کچھ کچھ پریشان گزر گئے ہیں
پَل پَل کی جو رکھتے تھے میری کبھی خبر
اب بَن کے میرے پاس سے انجان گزر گئے ہیں
آ جاؤ کسی سمے کہ ہو کچھ سکوں تو حاصل
بہت دن تجھے اَن دیکھے میری جان گزر گئے ہیں
کبھی آئیں تو بتانا کہ تمہارے انتظار میں
جو تھے کبھی ذہین وہ نادان گزر گئے ہیں
خوشی کہیں مِلے تو گھبرا سا جاتا ہے یہ
اِس دل سے اب تو ایسے طوفان گزر گئے ہیں
جن پر کبھی چمکتا تمہیں دیکھتے تھے انجم
اب تو یہاں سے وہ بھی آسمان گزر گئے ہیں