میرا درد بڑھتا ہی رہے ایسی دوا دے جاؤ
کچھ نہ کچھ میری وفاؤں کا صلہ دے جاؤ
یوں نہ جاؤ کہ میں رو بھی نہ سکوں فرقت میں
میری راتوں کو ستاروں کی ضیاء دے جاؤ
ایک بار آؤ تم کبھی اتنے اچانک پن سے
نا اُمیدی کو تحیریر کی سزا دے جاؤ
دشمنی کا کوئی پیرا یہ نادر ڈھونڈو
جب بھی آؤ ہمیں جینے کی دُعا دے جاؤ
وہی اخلاص و مروت کی پرانی تہمت
دوستوں مجھے کوئی تو الزام نیا دے جاؤ
کوئی صحرا اگر راہ میں آ جائے مسعود
دل یہ کہتا ہے ایک عدد صدا دے جاؤ