میرا رقیب بہت پیارا ہے
تبھی تو وہ دیکھ کر دل ہارا ہے
اتنی وفاؤں کے بعد بھی مجھے بھول گیا
میرے جینے کا تو وہی سہارا ہے
ُاسے کیونکر ہو گئی اب میری فکر ؟
بازی عشق میں وہ مجھے ہی تو ہارا ہے
میں بدُعا نہیں دیتی مگر اب ُدعا بھی نہیں
میرا نازک سا دل ُاس نے مارا ہے
کہاں سے ڈھونڈ کر لاؤں اپنی ذات کو
چاروں طرف طوفان ہیں نجانے کہاں کنارہ ہے
کیا دعایئں بھی ہوتی ہیں قبول لکی
میں نے تو وصل بھی سجدوں میں گزارا ہے
اے جانے والے مڑ کر تو دیکھا ہوتا
کسی نے تیرے آنے کا راستا نہارا ہے