ڈھونڈتیں ہیں جس کو نظریں وہ شخص نجانے کدھر گیا
میرا رقیب تھا میرا ہی سایہ کل رات چپکے سے مر گیا
پھر وقت گزرا یوں شام بیتی صبح تلک تھی شمع جلتی
اور جس کی راہ میں تھیں آنکھیں بچھائیں وہ آ کے یونہی گزر گیا
میرے مزاجوں کے سارے موسم اسکی یادوں میں گم رھے
اور یوں آنکھ کا آنسؤ دریا بن کے دل سمندر میں اتر گیا
سونی ھوئیں ہیں پھر سے گلیاں بے آسرا شہر کی فضائیں
نشیمن پے میرے گرا کر بجلیاں وہ شخص چپکے سے گھر گیا