میرا غم کبھی جدا نہیں ہوتا
زخم کوئی بھی نیا نہیں ہوتا
دیکھا ہے ہر شخص کو خدا بنتے
جیسے کوئی دوسرا خدا نہیں ہوتا
سارے دریاؤں کا پانی میرے اندر تھا
میں اپنی ذات میں ، اک سمندر تھا
رشک مجھ پر تھا ، واجب بہر صورت
دنیائے غم و حسرت کا میں سکندر تھا
میرے راستے میں جتنے بھی پتھر آتے ہیں
میرے خون کے خریددار نظر آتے ہیں
میں نے کچھ بھی ، نہیں بگاڑا ان کا
جو بن کے دشمن ، میرے گھر آتے ہیں
خوف رسوائی تھا ، لب کشائی کیا کرتے
کٹے تھے پاؤں ، بادیہ پیمائی کیا کرتے
جب ہم ہی ، بے موت مر گئے لوگوں
پھر ان کا دعوے مسیحائی کیا کرتے
کس خزاں ، کس بہار کی بات کرتے ہو
دل کے اجڑے دیار کی بات کرتے ہو
لکھا ہوا اپنا ، بھول جاتے ہیں لوگ
نادان ہو زبانی ، اقرار کی بات کرتے ہو