میری باتوں سے نا ایسے وہ غمگین ہوئی ہے
غلطی کوئ مجھ سے بھی تو سنگین ہوئی ہے
کبھی میری ہی غزلوں پہ وہ کچھ کہتی تھی ایسے
پڑھ کر ہی میری روح کو تسکین ہوئی ہے
مدت سے کتابوں میں پڑے پھول ہیں سوکھے
ایسے میرے ارمانوں کی تدفین ہوئی ہے
جیتا تھا کبھی میں بھی نوابوں کی طرح سے
الفت میں تو ہر موڑ پہ توحین ہوئی ہے
باقر مجھے جس دن سے گیا چھوڑ ہے وہ شخص
اسی دن سے ہی دنیا میری غمگین ہوئی ہے